نبیلہ حفیظ
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وبا کے دوران تقریباً 12000ہزارصحافیوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا،اس میں ایک بڑی تعداد خواتین کی شامل ہیں، ملازمت کے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ تو ہر وہ انسان جان سکتا ہے جس کے کندھوں پر گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے،اورایسی ملازمت پیشہ خواتین تو تعداد میں کم ہی ہوتی ہیں جو بغیر کسی معاشی تنگی کےصرف شوقیہ ملازمت کر رہی ہوں ورنہ یہاں تو خاصی تعداد ان خواتین کی ہے جن کے شوق پر اپنے گھر والوں کو سپورٹ کرنے کا دباؤ غالب ہوتا ہے۔ ایسے میں ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھنا کسی بڑے ذہنی کرب سے کم نہیں ہوتا،اس دوران ہر جاب لیس خاتون صحافی کے چہرے پر معاشی پریشانی کے اثرات نمایاں نظر آئے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔اس حوالے سے چند ایسی خواتین سے تاثرات پوچھے گئے جو کورونا کے دوران ڈائون سائزنگ کا شکا ر ہوئیں:
کورونا کے دوران جبری برطرفی کا شکار معروف سینئرصحافی افشاں قریشی کا کہنا ہے کہ اِسلام نے مزدور کے حقوق کو بھی واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو انکی ادائگی کاپابند کیا ہے۔حضرت عبداللہ ابنِ عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ”مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔لیکن ریاست مدینہ میں خواتین صحافیوں کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔مدینہ کی ریاست کا راگ الانپنے والوں کی ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ،میڈیا مالکان بھی صحافیوں کے معاشی قتل میں برابر ذمہ دار ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی مثال دونگی کہ روزنامہ جناح میں بطور میگزین ایڈیٹر 6 سال خدمات دیتی رہی لیکن جب کرونا کی وبائی بیماری آئی تو پہلے مجھے کہا گہا کہ ہمارے حالات اچھے نہیں لیکن آپ خود کو ہمارے ادارے کا حصہ ہی تصور کریں اور کام جاری رکھیں ۔2یا 3ماہ بعد آپکو تنخوائیں پھر سے دینگے لیکن3،4ماہ بغیر تنخواہ کے کام کریں ،میں نے کام جاری رکھا مگر 7ماہ بعد میرا سیکشن ہی بند کر دیا گیا اور مجھے فارغ کر دیا گیا یعنی7 ماہ تک مجھ سے جھوٹ بولا جاتا رہا حالانکہ اس دوران سرکاری اشتہارات مسلسل شائع ہوتے رہے۔
اسمانواز نے کہا کہ کرونا کا بہانہ بنا کر خواتین صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا،بعد ازاں کرونا کے خطرات ختم ہونے کے باوجود نوکریوں پر دوبارہ بحال نہیں کیا گیا،مجھے بھی بول ٹی وی سے نکال دیا گیا کہ ادارے کے حالات اچھے نہیں ہیں حالانکہ اشتہارات اسی طرح مل رہے تھے،اسما کا کہنا تھا کہ جب اداروں کے حالات اچھے ہوتے ہیں تب تو ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں لیکن بہانے بنا کر انہیں بے روزگار فوراً کردیا جاتا ہے،یہاں پی آر رکھنے والوں کو تو پھر بھی نوکری مل جاتی ہےلیکن جو میری طرح اپنے کام سے کام رکھتے ہیں،انہیں واپس نہیں بلایا جاتا،ایسے نہیں ہونا چاہیے،ہمارے ساتھ یہ بھی ناانصافی کی جاتی ہے کہ مالکان نوکری پر رکھنے سے پہلے ایک فارم پر دستخط لیتے ہیں جسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپکے ساتھ ناانصافی ہوبھی تو آپ اپنے حق کیلئے عملی طور پر کچھ نہ کرسکیں۔
اسما کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کے بعد نئی نوکری کی تلاش میں بہت خوار ہونا پڑتا ہے،ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم جس شعبے کو پندرہ یا بیس سال زندگی کے دیں اسکے بعد کسی اور شعبے میں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،تجربہ بھی نہیں ہوتا،بزنس کیلئے بھی پیسہ نہیں ہوتا،کم تنخواہوں پر سمجھوتہ کے باوجود بھی انصاف نہیں کیا جاتا۔
سینئر صحافی نرگس جنجوعہ نے بتایا کہ جب کووڈ کی وبا آئی تو ان دنوں میں روزنامہ جناح میں بطور ایڈیٹوریل انچارج کام کر رہی تھی،سخت پابندیوں میں بھی آن لائن کام کے بجائے دفتر جانا پڑتا تھا۔پھر حالات خراب ہوتے گئے تو دفتر میں ڈائون سائزنگ شروع ہو گئی،درجنوں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا،میگزین سیکشن مکمل بند ہوگیا جبکہ اس سیکشن میں کام کرنے والوں کو کہا گیا کہ آپ فارغ نہیں ہیں دو سے تین ماہ میں آپ کو دوبارہ کام پر بلا لیا جائے گا تب تک نصف تنخواہ ملتی رہے گی مگر یہ زبانی کلامی باتیں ثابت ہوئیں نہ تنخواہ ملی نہ دوبارہ نوکری کےلئے انہیں بلایا گیا۔پھر مجھے بھی یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا گیا کہ آفس بند کررہے ہیں اس وقت میری آٹھ ماہ کی تنخواہ بھی بقایا تھی جو نہیں دی گئی جبکہ میں نے سخت حالات میں کام کیا تھا۔بہر حال بعد ازاں بڑی کوششوں سے تقریباًچھ ماہ بعد بقایا جات ادا کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی کسی دفتر کے حالات اپ اینڈ ڈائون ہوتے ہیں تو اس کا پہلا نشانہ خواتین کا روزگار ہی بنتا ہے کیونکہ ہرکوئی یہی سمجھتا ہے کہ خواتین صرف شوقیہ نوکری کرتی ہیں انہیں پیسوں کی کیا ضرورت؟جبکہ حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں،بہت سی خواتین معاشی ذمہ داریوں میں اپنے باپ،بھائی یا شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہوتی ہیں جس کا سرمایہ داروں کواحساس تک نہیں ہوتا۔
میں نبیلہ حفیظ روزنامہ جناح میں بطور ایڈیشن انچارج روزنامہ جناح اسلام آباد کے میگزین سیکشن میں بطور ایڈیشن انچارج اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی کہ اچانک ایک دن اڈیٹرصاحب ہمارے سیکشن میں آئے اور میرے سمیت سیکشن کی دیگر خواتین سے کہنے لگے کہ چونکہ کرونا وبا کے باعث ادارے کے حالات کافی خراب ہوچکے ہیں لہذا مذید کلر پیج جاری نہیں رکھ سکتے،آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور صرف تین سے چار ماہ تک ملازمت ترک کردیں،ادارہ آپ کو گھر بیٹھے آدھی تنخواہ دیتا رہے گا اور پھر آپ کو واپس بحال بھی کردیا جائے گا،مگر ایسا نہیں ہوا،ہمیں آدھی تنخواہ بھی نہیں دی گئی اور الٹا ہمیں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میگزین سیکشن کو بند کردیا گیا ہے آپ لوگ نوکری سے فارغ ہیں جبکہ پچھلی تنخواہیں بھی اقساط میں ادا کی گئیں۔
میرے سمیت میری باقی ساتھی خواتین کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا،مالکان کی ناانصافی پربہت دل برداشتہ بھی ہوئی مگر کیا ہوسکتا تھا،اسی دوران ایک اور نجی چینل میں نوکری ملی مگر وہاں سے بھی انتھک محنت کے باوجود تین ماہ بعد ملازمت سے فارغ کردیا گیا،گھر کے معاملات اور اپنے تعلیمی اخراجات اس حد تک متاثر ہوئے کہ میں شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہوگئی۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہردورحکومت میں غریبوں کا اورخصوصاً خواتین کا ہی زیادہ استحصال کیوں کیا جاتا ہے،ہم صحافی خواتین عام مظلوم خواتین کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتی ہیں مگر افسوس کہ جرنلسٹ خواتین کو اپنے لئے آواز اٹھانے کی اجازت نہیں،آخر کیوں؟