عاصمہ کنڈی
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ صحافی اپنے رائے کے اظہار میں آزاد ہوتا ہے مگر افسوس کہ یہ کافی حد تک غلط ہے کیونکہ صحافی اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کے کھیل کا میدان را مختلف اور خاردار ہوتا ہے۔ نئے زمانے نے باقی شعبوں کی طرح صحافت کے شعبے کے خدوخال کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے اب جہاں صحافی اپنی خبر لوگوں تک پہچانے کے لئے کسی نیوز چینل یا اخبار کا محتاج نہیں رہا وہیں وہ لوگوں کی تنقید اور نفرت کا بھی براہ راست سامنا کرتا ہے۔
یہ نفرت اور تنقید بہت سی خواتین صحافیوں کو اپنی آواز دبا دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔آئیے ملتے ہیں ایسی ہی خواتین صحافیوں سے جنھوں نے ٹرولنگ کے ڈر سے سوشل میڈیا اور خصوصی طور پر ٹویٹر پر اپنی رائے کا اظہار یا تو چھوڑ دیا ہے یا انتہائی محدود کر دیا ہے۔
صباحت خان بھی ایک صحافی ہیں اورگزشتہ کئی سالوں سے اس شعبے سے منسلک ہیں۔ صباحت نے دوسری شادی آرڈیننس کے حوالے سے ایک سٹوری کی اور حسب روایت اپنی سٹوری کو ٹویٹر پر شئیر کیا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ یکایک انکو سٹوری پر غیر مناسب کمنٹس ملنا شروع ہو گئے۔ اپنا سب سے زیادہ پریشان کن لمحہ یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ، ’میری سٹوری شائد کچھ لوگوں کو ناگوار گزری اور انھوں نے کافی کمنٹس کئے مگر ایک کمنٹ مجھے آج تک نہیں بھولا کہ یہ تو خود ہی خواجہ سرا لگتی ہے اسکا اپنا شوہر دوسری شادی کرے گا۔ یہ کمنٹ میرے ابو نے بھی پڑھا اور مجھے ایسے ایشوز پر لکھنے کومنع کیا جس کیوجہ سے بےعزتی ہو۔’
صباحت آج بھی اس بات کو یاد کر کے بہت افسردہ اور دلبرداشتہ محسوس کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، ’آجکل صحافت میں بھی ”برانڈ نیم’ چلتے ہیں کہ اگر کوئی برانڈ نیم صحافی خاتون چاہے عاصمہ شیرازی ہو یا غریدہ فاروقی، انکو ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جائے تو سب صحافتی تنظیمیں اور مرد صحافتی برادری بھی انکے حق کے لئے آواز اٹھائیں گے لیکن ہم جیسے عام صحافی جو فیلڈ میں کام کرتے ہیں اور صحافت کا پہیہ سہی معنوں میں چلاتے ہیں انکے حقوق کسی کو یاد آتے ہیں اور نہ ہی کوئی آواز اٹھانے کی زحمت محسوس کرتا ہے۔’صباحت نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال اب بہت ہی محدود کردیا ہے۔
وویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی بانی فوزیہ کلثوم رانا سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اسکا زمہ دار کسی حد تک خود صحافیوں کو بھی قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ، ”نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آجکل بہت سے صحافی اپنے شعبے کی حدود اور اصولوں سے تجاوز کر رہے ہیں۔ ہر شعبے کیطرح صحافت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جنکا خیال ہم صحافیوں کو رکھنا چائیے۔
انھوں نے کہا کہ چند ایک صحافی صحافت کے بجائے سیاست کرتے ہیں اور انکی ٹویٹس اور خبروں سے لگتا ہے کہ کسی نا کسی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ بہت زیادہ تنقید اور گالم گلوچ کا سامنا کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ باقی صحافیوں اور خصوصأ اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔’
بطور صحافی میں نے خود پہ سیلف سنسرشپ لگا رکھی ہے۔ ٹویٹ کرتے وقت ڈرتی ہوں کہ رائے دینے پہ گالیاں پڑ سکتی ہیں اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ٹرول شامل ہیں۔ سیاسی بیٹ کی وجہ سے بھی گالم گلوچ سہتے ہیں۔
فوزیہ نے اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک صحافی کی اپنی ناپسندیدہ حکومت میں پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو وہ اسے ’پیٹرول بمب’ کہتےہیں اور حیرت انگیز طور پر اگر اپنی پسند کی حکومت ہو تو اسی قیمتوں میں اضافے کو وہ وقت کی اہم ضرورت اور معیشت کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کی صحافت ان بڑے بڑے صحافیوں کو تو بہت سے فوائد سے نوازتی ہے مگر اس شعبے میں کام کرنے والے غیر جانبدار صحافی بھی لوگوں کی طرف سے تنقید اور نفرت کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس طرح کی صحافت سے اس شعبے کی شفافیت پر شکوک وشہبات میں اضانہ ہوتا ہے اور نقصان سب اٹھاتے ہیں بلخصوص خواتین صحافی، جنکا کردار ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
جب غریدہ فاروقی سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو سپورٹ کرتی ہیں جسکی وجہ سے وہ ٹرولنگ اور آنلائن تنقید کی زد میں رہتی ہیں تو انھوں نے اس سوال کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ، ’شائد آپ میرے کام اور ٹویٹس سے واقف نہیں ہیں۔ میں ہر سیاسی جماعت چاہے وہ حکمران ہو میں انکی کارکردگی، پالیسیوں اور ایکشن پے عوام کی طرف سے سوال اٹھاتی رہتی ہوں۔ یہ بطور صحافی میرا کام ہے اور میں سب پر یکساں تنقید کرتی ہوں جہاں تنقید بنتی ہے۔‘
غریدہ کا کہنا تھا کہ وہ ۲۰۱۴ سے آنلان ہراسگی کا شکار ہیں اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکن، مشہور شخصیات، ریٹائرڈ آفیسرز [چاہے فیک اکاؤنٹس ہوں] اس ٹرولنگ ملوث ہوتے ہیں اور انکو ریپ، اغوا اور قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ’میرے ایف آئی اے میں سات سے آٹھ کیس پڑے ہوئے ہیں اور ابھی تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔‘
غریدہ نے کہا کہ ’اس طرح کی ٹرولنگ اور ہراسگی کا مجھ پے کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ میں ایک مظبوط اعصاب کی حامل صحافی ہوں مگر اس بات کا تدارک اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر صحافی خاتون میری طرح مظبوط نہیں ہوتی۔ انکو اپنی فیملی اور دوستوں کے علاوہ قانونی اداروں سے اس بارے میں بات کرنی چاہئے اگر وہ ٹرولنگ کا شکار ہیں تو۔ اگر آپ کی زہنی صحت خراب ہو رہی ہے تو آپ کو بریک لے لینی چاہیے۔‘
صدف خان جو کہ میڈیا اخلاقیات پر کام کرنے والی ایک این جی او ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کی شریک بانی ہیں ان سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ ’اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ میڈیا میں پروفیشنلزم کی کمی تو ہے، انھوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا پیشہ ورانہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی بہت پیچھے جا چکا ہے اور ہمیں میڈیا میں پولرائزیشن بھی نظر آتی ہے۔ اکثر صحافی بغیر تصدیق کے بھی خبر شئیر کردیتے ہیں لیکن ہمیں ان باتوں کو ٹرولنگ سے ملانا نہیں چاہئے کیونکہ دونوں چیزیں غلط ہیں۔‘
انکا مزید کہنا تھا کہ ٹرولنگ اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ غلط خبر شیئر کی گئی ہے بلکے اسکی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کی ٹرولرز کی پسندیدہ سیاسی پارٹی یا شخصیت کے خلاف کوئی بات شئیر کی گئ ہے۔انھوں نے کہا کہ ٹرولنگ اور تنقید کی وجوہات پر اختلاف ضرور ہو سکتا ہے مگر یہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین صحافیوں کے لئے آنلان سپیس کو جہاں تنگ کر رہی ہے وہیں انکی زہنی صحت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھی بری طرح متاثر کررہی ہے۔