زبیح اللہ گنڈاپور
پچھلے دنوں بلدیاتی انتخابات نے سیاسی منظر کو تبدیل کر دیا ہے۔جمیعت علماء اسلام نے پہلے مرحلے میں کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔جسکے بہت سے اندرونی اور بیرونی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں۔پی ٹی آ ئی کو عوام اور نادیدہ طاقتوں کے توقعات پر پورا نہ اترنے پر بطور سزا شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دیگر جماعتیں بھی کہیں نہ کہیں کامیاب ہوئیں۔
جے یو آئی کو مختلف جگہوں پر پی ٹی آئی مخالف سیاسی قوتوں نے مدد کرکے کامیاب کرایا۔اسکی ایک وجہ پی ٹی آئی کے اس بے لچک اور نہ جھکنے والا رویہ رہا۔دوسری طرف مہنگائی،توانائی کا بحران اور عوامی مسائل نے بھرپورکردار ادا کیا۔عوام کے نفسیات کو بھی نظر انداز کیا گیا جو کہ کسی بھی وفاقی حکومت کو تین سال تک برداشت کر سکتی ہے۔اور اگر توقعات پر پورا نہیں اترتی تو پھر اسے ووٹ بینک سے محروم کر دیتی ہے۔نیز عوام کو دو وقت قابل استطاعت روٹی چاہیے۔
بیرونی وجوہات میں اس متغیر سیاسی اور تزویراتی(strategic) منظر نامہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ اندرونی طور پر عوامی اور عسکری نفسیات پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔سب سے پہلے افغانستان میں امریکی اور اسکے اتحادیوں کی شکست نے بھی عوامی رائے کو تبدیل کر دیا ہے اور مذہبی حلقے کی سیاسی اور اجتماعی کامیابی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
مستقبل کا لائحہ عمل بھی اسٹیبلشمنٹ کیلئے نہایت باریک بینی اور محتاط فیصلہ سازی کیلئے مجبور کر رہی ہے۔افغانستان کے ساتھ متصل اس خطے میں وہی سیاسی قوت درکار ہے جو کہ مذہبی،نظریاتی اور نسلی اعتبار سے پاکستان،افغانستان،چین اور کسی حد تک امریکہ کیلئے قابلِ قبول ہو۔