تحریر: سدھیر احمد آفریدی
کرسی اہم ہوتی ہے کیونکہ اس سے طاقت جڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ قیمتی باکمال اس منصب اور کرسی پر بیٹھنے والا انسان ہوتا ہے اگر کرسی پر بیٹھا آفیسر خدا ترس،ایماندار، باصلاحیت، تجربہ کار اور انسان دوست ہوگا تو وہ اختیارات کا ناجائز اور غلط استعمال کبھی نہیں کریگا بلکہ ایک ایماندار اور فرض شناس آفیسر کی کوشش ہوگی کہ وہ سب سے پہلے اپنی لائنیں درست کریں، اپنی انتظامیہ اور ماتحت لوگوں کی تربیت اور نگرانی کے نظام کو موثر بنائیں تاکہ ان کے اندر احساس ذمہ داری اور ایمانداری پیدا ہو اور وہ سب ملکر اپنی انتظامیہ کو مثالی انداز میں چلائیں۔
نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں پھر کہیں جاکر وہ ڈیلیور کر سکیں گے معاشرے اگر بگڑتے ہیں تو اس میں مختلف کردار شامل ہوتے ہیں اور جب معاشرے بگڑتے ہیں تو ان سے فساد پھوٹ پڑتا ہے اور فساد اور بگاڑ کے ماحول میں پھر سارے لوگ پریشان حال رہتے ہیں اور کسی کو چھین و سکون نصیب نہیں ہوتا ہے اور معاشرے کو سنوارنے اور بنانے میں بھی مختلف کرداروں کا اپنا اپنا رول ہوتا ہے۔
فی الحال چونکہ میں اپنے ضلع تک محدود ہوں اس لئے سب کچھ اپنے ضلع اور زیادہ سے زیادہ قبائلی اضلاع کے عنوانات پر لکھ کر اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال دیتا ہوں گزشتہ رمضان المبارک میں لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ کمشنر محمد عمران خان تھے جن کے مطابق فنڈز تو ان کو نہیں مل رہے تھے لیکن پھر پھر کورونا کو لگام دینے،ایس او پی پر عمل درآمد کروانے اور مناسب قیمتوں پر معیاری اشیاء خورد ونوش کی خرید و فروخت کو یقینی بنانے کے لئے شب و روز سرگرم عمل رہتے تھے۔
لنڈیکوتل کے سابق اسسٹنٹ کمشنر محمد عمران خان کے خوف سے کسی دکاندار میں یہ جرآت نہیں تھی کہ وہ گلی سڑی، غیر معیاری، دو نمبر یا ملاوٹ شدہ چیز فروخت کر دیتے اور اگر کوئی شکایت کرتا تو فوری نکل کر چھاپہ مار دیتے بحر حال وہ اکیلے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے کام کے آدمی اور مخلص آفیسر تھے اور آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں کہ نہ صرف لنڈیکوتل میں بلکہ ضلع خیبر کی جمرود اور باڑہ تحصیلوں میں بھی دو نمبر، ملاوٹ شدہ اور غیر معیاری خوراکی چیزیں کھلے عام بیچی جاتی ہیں لیکن کسی سول انتظامیہ، پولیس اور تحصیل میونسپل انتظامیہ کے کسی سینئر اور جونئیر آفیسر میں یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر مضر صحت اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت پر پابندی لگا سکے۔
حیران ہوں سارے دکاندار مسلمان اور روزے دار ہیں پھر بھی ملاوٹ کرتے ہیں، پھر بھی دو اور تین نمبر کی غیر معیاری اشیاء بیچتے ہیں دودھ میں پاؤڈر کی ملاوٹ، دہی میں ملاوٹ، دیگر درجنوں خوراکی چیزیں ہیں جیسے سنیکس اور نوڈلز وغیرہ سب غیر معیاری ہیں جن کو لوگ پیسے دیکر خریدتے ہیں مگر اصل میں خریدار پیسوں سے بیماری خریدتے ہیں ضلع خیبر کی مارکیٹوں اور بڑے بازاروں کو اگر دیکھا جائے تو وہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا اور گردو غبار سے آٹی ہوئی گندی چیزیں راستوں میں بیٹھے افراد بیچتے ہیں اور لوگ بلا خوف و خطر خرید لیتے ہیں بازاروں کی یونینوں کے صدور تو صرف اپنے لئے کمائی کرتے ہیں اس لئے بازاروں کی صفائی اور دیگر انتظامات سے غافل رہتے ہیں۔
کسی کو اپنی صحت کی فکر نہیں لوگ تو ناداں ہیں اور بچے سمجھتے نہیں کہ وہ پیسے دیکر زہر خریدتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگ جن میں بچے بھی شامل ہیں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہیں اور اکثر لوگوں کے معدے خراب ہوتے ہیں ذمہ دار آفسران تو غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہمارے ڈاکٹرز صاحبان،آئمہ مساجد، قومی مشران اور خود میڈیا کے لوگ بھی اپنا کردار درست طور پر ادا نہیں کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے اس بگاڑ میں سب شریک ہیں۔
باوثوق ذرائع سے سنا ہے کہ تحصیل باڑہ کے کارخانوں میں غیر معیاری اور دو نمبر سیگریٹ تیار ہوتی ہیں اور پھر یہ دو نمبر سیگریٹ اصل قیمت پر گاہک کو ضلع خیبر کے بازاروں میں فروخت کر دی جاتی ہیں ایک طرف سیگریٹ خود تباہی ہے اور دوسری طرف اگر ان کا کوئی معیار ہی نہ ہو پھر تو پوری تباہی مچا دیتے ہیں رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں بھی دکاندار جعلی، غیر معیاری چیزیں منہ مانگی قیمتوں پر بیچتے ہیں ان کو اللہ کا خوف اور روز قیامت میں جواب دہی کا کوئی احساس نہیں محض بھوکے پیاسے رہنے سے کسی کو کچھ نہیں ملیگا لیکن ہماری انتظامیہ، سول بیوروکریسی جیسے ڈپٹی کمشنر اور ان کے ماتحت اسسٹنٹ کمشنرز اور تحصیلداران کس مرض کی دوا ہیں وہ اپنے دفاتر سے کیوں نہیں نکلتے، کیوں بازاروں کے چکر لگا کر اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں اور ان کے معیار کو چیک نہیں کرتے؟
کیا ان کے پاس معلومات یا آلات کی کمی ہے یا پھر خود ان کو کچھ مل رہا ہے اس لئے خاموش ہیں ؟ خیبر کے علاقے میں موبائل فون کے ٹاورز اکثر اوقات بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے سگنلز نہیں ہوتے ہیں اور صارفین پریشان رہتے ہیں اعتراض یہ ہوتا ہے کہ موبی لینک کے تیل سپلائی کرنے والے افراد اور ٹاورز کے مالکان آپس میں ملے ہوئے ہیں اور تیل بیچ کر ٹاورز بند رکھتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتا بار بار شکایات کی گئیں مخاطب ہمارے سول اور پولیس کے آفسران ہیں کہ خدارا حکمران نہ بنیں،
آپ تو لوگوں کے نوکر ہیں سول سرونٹس ہیں اس لئے لوگوں کی خدمت اور معاشرے کو سنوارنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور جن کرسیوں پر طاقت کے ساتھ براجمان ہیں ان کرسیوں،اختیارات اور طاقت کا شفاف،منصفانہ اور دیانت داری سے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف فراہم کریں، ظالم کا ہاتھ روکیں اور مظلوم کی مدد کریں، معاشرے کو صحت مند بنانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں اور جہاں کوئی کسی کا استحصال کر رہا ہے اس پر ہاتھ ڈالیں اور انصاف کا بول بالا کریں تاکہ معاشرے سے افراط و تفریط ختم ہو سکے مذکورہ بالا خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقات اور خصوصاً اہل خیر افراد سب کو ملکر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے معاشرے سے تمام غلاظتوں کو پاک کرنے میں کامیاب ہو سکے۔