تحریر: آصف منور ۔ جھنگ
دنیا بھر کی اقوام اپنے معاشرے میں صفائی ستھرائی کے کام کو بڑی اہمیت دیتی ہیں یہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے لیکن دیگر ممالک کے مقابلے میں فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صفائی کے کام کے لئے خاکروب صرف غیر مسلموں کورکھا جاتا ہے جن میں سے ستر فیصد سے زائد مسیحی برادری کے افراد شامل ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے تما م سرکاری محکموں میں جب بھی خاکروب کی تعیناتی کے لئے اشتہار ات دیئے جاتے ہیں تو ان میں واضع طور پر یہ لکھا جاتا ہے اس ملازمت کے لئے "صرف غیر مسلم اقلیتی افراد” ہی کو بھرتی کیا جائے گا ۔ ا س حوالے سے اگر ہم پنجاب سروسز رولز 2003کا مطالعہ کریں تو اس کے صفحہ نمبر 9پر واضع طور پر درج ہے کہ سنیٹری ورکر ، سویپر ، جمعدار کے لئے صرف غیرمسلم افراد جو اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں انہیں ترجیح دی جائے گی۔ اس حوالے سے جب ہم آئین پاکستان کامطالعہ کرتے ہیں تو اس کے آرٹیکل 25کے مطابق تمام شہری برابری کے حقوق رکھتے ہیں اور انہیں بلا تفریق،بلا امتیاز تمام حقوق حاصل ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں بسنت والے اقلیتی افراد جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک اسی ملک کے باسی ہیں اور ان میں ایسے بھی شامل ہیں جو تقسیم ہند کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آئے اور اب ان کی اولادیں اس پاک سرزمین پر پیدا ہوکر جوان ہوئیں اورانہوں نے بھی باقی شہریوں کی طرح ملک پاکستانی کی ترقی ،خوشحالی اور ملکی سطح پر اپنی خدمات پیش کیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کے ساتھ تعصب ،تفریق اور امتیاز ی سلوک قانون کی شق میں روا رکھنا قطاً ہی مناسب نہ ہے ۔ضلع جھنگ کرسچن کالونی کا رہایشی بابر مسیح پڑھا لکھا ہونے کے باوجود کسی اچھی ملازمت پر بھرتی نہ ہو سکا ۔بے روزگاری ،گھریلو مسائل اور معاشرے میں پائے جانے والے رویے اس کی ترقی کے آڑے آئے اور اسے مجبوراً محکمہ صحت جھنگ میں 15نومبر2007کو بطورخاکروب بھرتی ہونا پڑا۔بابر مسیح کے مطابق اس نے لاتعداد محکموں میں مختلف نوعیت کی ملازمتوں پر درخواستیں ارسال کیں لیکن اسے ملازمت نہ مل سکی ۔پڑھ لکھ کر اپنے ہی شہر ،محلے ، گلی میں جھاڑو لگانا اور صفائی ستھرائی کا کام کرنا شاید روح کو جھنجوڑ دینے والا کام ہے لیکن جب حالات ایسے ہوں تو پھر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے ۔جب بابر کو کچھ سال ملازمت کرنے کے باوجود بھی ترقی نہ ملی جبکہ اس سے کم پڑھے لکھے لوگ جو اسی کے ساتھ بھرتی ہوئے تھے اور ان لوگوں کو اکثریتی شہری ہونے کی بنیاد پر دفتری کاموں پر مامور کر دیا گیا تھا تو بابر دلبرداشتہ ہو گیااور ملازمت سے چھٹی لے لی۔ایسے ہی واقعات نجانے پورے پاکستان میں ہو رہے ہیں لیکن اس کے سد باب کیلئے کوئی کوشش نہ کی گئی۔
پورے ملک میں ملازمتوں کے حوالہ سے سرکاری اداروں میں ایسے ہی تعصب پر مبنی اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں ضلع جھنگ محکمہ صحت میں 28اگست 2017کو روزنامہ خبریں لاہور اور 27اگست 2017روزنامہ ایکسپریس میں محکمہ صحت جھنگ کی طرف سے درجہ چہارم کی آسامیوں کیلئے درخواستیں مطلوب تھیں کہ اشتہار کے کالم نمبر 8میں خاکروب کی 31آسامیوں پر” صرف غیر مسلم اقلیتی افراد” کو بھرتی کئے جانیوالے الفاظ درج تھے۔ اور یہ اشتہار محکمہ صحت کے سی ای اوڈاکٹر شاہد سلیم کے دستخط سے جاری ہوا ۔بندہ ناچیز نے اس آئینی حقوق کی پامالی پر ضلعی اور قومی سطح پر آواز اٹھائی اور اس مسلئے پر 29اگست2017کو روزنامہ مرکزی رپورٹ لاہور میں خبر بھی شائع ہوئی تو اس پر حکام بالا حرکت میں آئے اورروزنامہ خبریں لاہور میں 2ستمبر2017کو تصیح نامہ جاری کر دیا جس میں واضع لکھا ہوا تھا کہ” صرف غیر مسلم اقلیتی افراد” کو بھرتی کئے جانیوالے الفاظ کو حذف شدہ سمجھا جائے اور وہ اشتہار بھی سی ای او محکمہ ہیلتھ ڈاکٹر شاہد سلیم کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔
اس حوالے سے فیصل آباد بار کے ممبر اور معروف قانون دان شاہد انور کہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام افراد آئین پاکستان کے تحت برابر کے شہری ہیں اور ان کے حقوق بھی مساوی ہیں اور انہیں بلا تفریق روزگار کے تمام مواقع فراہم کئے جائیں گے اور دوسری طرف جو 6اکتوبر 2003 کو سروسز رولزبنائے گئے ہیں اور جس میں واضع طور پر لکھا گیا ہے کہ سنیٹری ورکر ، سویپر ، جمعدار کے لئے صرف غیرمسلم افراد جو اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں انہیں ترجیح دیا جائے گا یہ آئین پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں اورایسے قوانین سے مذہبی اقلیتیں احساس کمتری کا شکار ہوتیںہیں ریاست کی اور حکومتی نمائندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ا نسانی حقوق کے معیارات کو زیر غور رکھتے ہوئے ان سروسز رولز میں ہنگامی بنیادوں پر ترمیم کی جائے اور اس شق کو قانون سے خارج کیا جائے۔
پال شاہد ممبر ضلعی کمیٹی انسانی حقوق جھنگ کہتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11اگست کی تقریر میں یہ واضع طور پر بیان کیا ہے کہ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ملک کی ابتداء کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں ۔ آپ میں سے ہر ایک اول،دوم اور آخر اس ریاست کا شہری ہے آپ کے حقوق ،استحقاق اور فرائض مساوی ہیں ۔اگر قانون میں یہ شق موجود ہے تو پھر تصیح نامہ کیوں جاری کیا جاتا ہے ۔اس شق کو قانون سے ختم کرکے مساوی حقوق پر عملدآمد کروایا جائے ۔
سابق ممبر ضلع کونسل جھنگ سروش فرینک کہتے ہیں کہ شہید شہباز بھٹی وفاقی وزیر کی بدولت اقلیتوں کے لئے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص ہوا جس کی وجہ سے آج بھی پاکستانی اقلیتیں انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کوٹہ پر دو سے تین فیصد عملدآمد ہو سکااور ستم ظریفی یہ کہ اقلیتوں کو زیادہ تر درجہ چہارم کی نشستوں پرہی بھرتی کیا گیا ۔جبکہ دستور پاکستان 1973کے آرٹیکل 36میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ ،ان کی وفاقی اورصوبائی سطح پر ملازمتوں میں نمائندگی کو ممکن و لاز م بنانے کی ضمانت دی گئی ہے۔انتظامی حکم نامہ (نوٹیفکیشن )پر انحصار کرنے کی بجائے ملازمت کوٹہ کیلئے واضع قانون اور پالیسی مرتب کی جائے اور اس کی نگرانی کیلئے کسی حکومتی ادارہ کو ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ اس کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سالانہ طور پر کوٹہ پر عملدآمد اور شکایات کی رپورٹ شائع کریں ۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ شماریاتی بلیٹن کے مطابق 2013-14کے دوران وفاقی سرکاری اداروں میں 444,521آسامیوں کے مقابلے صرف 2.3فیصد یعنی کہ 10,086پر اقلیتی افراد تعینات تھے جن میں مسیحی 9.027ہندو 832،احمدی 201،سکھ 4 دیگر 21تھے ۔2010-11کے دوران وفاقی حکومت کے زیر انتظام سرکاری اداروں میں کل 449,964آسامیوں کے مقابلے صرف 11,521اقلیتی افراد کو تعینات کیا گیا جوکہ کل آسامیوں کا 2.6فیصد تھیں یعنی 5فیصد آسامیوں کا حدف پورا نہ ہو سکا اور ان میں 2.6ملازمتوں کا 81فیصد گریڈ 5-1اور 16.5فیصد گریڈ 16.6میں دی گئی تھیں ۔اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوٹہ سسٹم کے نفاد کئی سالوں بعد بھی اقلیتوں کی ملازمتوں تک رسائی مقررہ حدف سے کہیں کم تھی۔
صرف اقلیتی شہری ہی صفائی کیلئے کیوں؟
