نکاش بھٹی پشاور
سفید رنگ پاکیزگی اور کاملیت کا عکاس ہے، پاکستان کے جھنڈے میں موجود سفید رنگ وطن عزیز میں موجود بسنے والی اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مگر گذشتہ ستر سالوں کے دوران اقلیتوں کی حالت زار پر نظر دوڑائی جائے تو اکثریت کی زندگیوں سے شاید پاکیزگی کو ظاہر نہیں ہوتی، معاشرے کی حقارت اور حکومتوں کا تصب سے بھرے رویے اور فصیلے جھنڈے میں موجود سفید رنگ کو متروک کرتے نظر آتے ہیں۔
ورلڈ واچ منیٹر ادارے کے ایک سروے کے مطابق 80 فصید مسیحی خاکروب اور صفائی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
معاشرے کے سب سے ادنیٰ پیشے سے وابستہ یہ لوگ ذیادہ تر حکومت کی فراہم کردہ دو کمروں کے خستہ حال مکانوں میں آباد ہیں اور یہ کچے خستے مکان کچی اور گن
د سے اٹی گلیاں ملک کے بڑے شہروں میں وہاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بستی پشاور شہر سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے جہاں تقریباً پچاس کے قریب گھر آباد ہیں۔ ۲۰۱۲ میں ان کو شہر میں موجود انکو انکی بستیوں سے نکال کر شہر کے مضافات میں سرکاری زمین لاٹ کی گئی، جہاں لوگوں نے آہستہ آہستہ اپنے گھروں کی تعمیر شروع کی، شروع میں اس آبادی کا نام کریسچن کانونی تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ نام کچرا کانونی بن گیا۔اس آبادی کی وجہ شہرت تب ہوئی، جب 2014 میں حکومت نے اس ہی آبادی کو ڈپنگ سائٹ قرار دے دیا، چنانچہ سارے شہر کا گند جو کہ یہاں کے مکین ہی شہر سے صبح کے اوقات میں صاف کرتے ہیں شام وہی ہزاروں ٹن گند ان ہی لوگوں کے گھروں کے سامنے پھینکا دیا جاتا تھا۔ اس ہی آبادی کے مکین شمون مسیح اس بارے میں کہتے ہیں “ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، ایک طرف تو لوگ ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں دوسرا وہی کوڑا جو شہر سے ہم لوگ صاف کرتے ہیں وہ ہمارے ہی گھروں کے آگئے پھینک دیا جاتا ہے” ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ تفن، بدبو اور مچھروں سے اٹی یہ بستی شمون کا گھر اس کا کل اثاثہ اور اسکے بچوں کا مستقبل ہیں.
انسانی حقوق کے کارکن ہارون سرباب دیال کہتے ہیں “ یہ معامعلہ انسانیت کا ہے اور اسکو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، سول سوسائٹی کی کوششوں اور احتجاج سے یہاں مذید ڈپنگ تو بند ہو گئی ہے لیکن ابھی بھی ہزاروں ٹن گند ابھی پڑا ہے جسکو اٹھانے کی ضرورت ہے”۔
گند کے اس ڈھیر کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب ہے بیماروں کی ساتھ جینا ہے ملیریا، ڈینگی، دمہ سانس کی تکلیف یہاں کے مکینوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ موحولیات میں ایم فل کے طالب علم زاہد بشیر کا کہنا ہے “ پشاور شہر پہلے ہی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس طرح کے ماحول میں زندگی گزارنا نہایت ہی خطرناک ہے اور اس کا شکار بچے آسانی سے ہوتے ہیں”۔
یہاں کہ مکین اپنے اقلیتی نمائندوں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں لوگ یہاں بہت آتے ہیں فوٹوشوٹ کرے چلتے بنتے ہیں لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی آج تک ہماری حالت زار پر کسی کو رحم نہ آیا اور نہ ہی کسی نے عملی اقدامات اٹھائے۔
اس حوالے سے ایم پی اے ولسن وزیر کا کہنا تھا “میری کوشش ہوگئی اس مسلئے پر بھرپور آواز اٹھائی جائے اور اس طرح کی بستیوں میں رہنے والے لوگوں کے اچھی بہتر رہائشی گھروں کا بندوبست کیا جا سکے”۔
اکیسوں صدی کے اس دور میں جہاں دنیا ایک طرف چاند پر قدم رکھ رہی ہے وہاں اس کچرا کانونی اور اس طرح کی ہزاروں کچی آبادیاں انسانیت اور انسانیت کے علمبرداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔