کاشف منیر پشاور
یہ ھے پھولوں کا شہر پشاور، جہاں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی بے شمار کہانیوں کا آغاذ ھو جاتا ھے۔ غروب آفتاب تک کئی کہانیاں تو پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ھیں اور کئ ادھوری رہ جاتی ھیں۔ ایسی ھی کہانیوں میں سے اک کہانی ھے اکیڈمی ٹاون پشاور کے رہائشی 20 سالہ احتشام گل کی۔ جس کی زندگی کو مشکلات نے گھیر رکھا ھے۔ احتشام کے والد رفاقت مسیح ایک نجی ادارے میں صفائی کے پیشے سے وابستہ ھیں اور والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ھے۔ احتشام کے 6 بہن بھائی ھیں۔ چونکہ احتشام سب سے بڑا ھے لہذا والدین کے ساتھ ساتھ باقی بہن بھائیوں کی کفالت کی بڑی ذمہ داری بھی اس پر عائد ھوتی ھے۔
یہ خاندان کرائے کے گھر میں مقیم ھے۔ احتشام نے بڑی محنت کر کے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم تو حاصل کر لی مگر مذید تعلیم کے حصول نے اس نوجوان کے لئے مشکلات کے کھٹن پہاڑ کھڑے کر رکھے ھیں۔ احتشام نے پارٹ ٹائم جاب کر کے ورچویل یونیورسٹی میں بی ایس سائکالیوجی میں داخلہ تو لے لیا ھے مگر فیس اور دیگر اخراجات برداشت کرنا مشکل ھو رہا ھے۔
مورخہ 28 مئی 2019 کو اقلیتی رکنِ قومی اسمبلی جناب جمشید تھامس نے ”اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی بل 2019“ کے نا م سے بلِ پیش کیا جو کہ مسترد کر دیا گیا۔ بل کا مقصد اقلیتوں کو ملک بھر کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کی رسائی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کوٹہ مختص کرنا تھا۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ احتشام کا تعلق مسیحی برادری سے ھے ۔ اور مسیحی پاکستان میں کمزور اور محروم ھیں۔ اکثر مسیحی طالب علم پرائمری یا مڈل تک ھی تعلیم حاصل کر پاتے ھیں۔ ۔ اور جو میٹرک کر بھی لیتے ھیں تو وہ نجی تعلیمی اداروں میں مالی حالت کمزور ھونے کی وجہ سے داخلہ نہیں لے پاتے۔ اور سرکاری اداروں کا میرٹ ہائی ھونے کی وجہ سے داخلے سے محروم رہ جاتے ھیں۔
بدر الزمان روشن ایک مسلمان نوجوان ھے۔ جنہوں نے حال ھی میں پی ایم ایس کا امتحان پاس کیا ھے۔ یہ مسیحی اکثریتی آبادی والے علاقہ میں رہتے ھیں۔ ان کے خیال میں مسیحی نوجوانوں میں موٹیویشن کی کمی ھے۔ چونکہ زیادہ تر مسیحی لوگ کلاس فور کی نوکریاں کرتے ھیں جس کی وجہ سے ان کی بستیوں میں مقابلے کی فضاء قائم نہیں ھو پاتی اور وہ اپنا روشن مستقبل بنانے میں ناکام رہتے ھیں۔
جنوری 2013 میں کرسچنز ان پاکستان(آن لائن ویب) نے پہچان فاونڈیشن کے توسط سے جو کہ مذھبی اقلیتوں کیلئے کام کرتی ھے نے کچھ اعداد و شمار پیش کیے جس سے یہ انکشاف ھوا کہ مسیحیوں کی شرح تعلیم پاکستان میں بسنے والی دوسری اقوام سے سب سے کم ھے۔ صرف 6 % پاکستانی مسیحی پرائمری، 4% ہائی سکول، 1 % کالج اور 0.5 % پروفیشنل تعلیم حاصل کر پاتے ھیں۔
ایم ایس سکالر اور سماجی کارکن شکیل عنایت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ھوئے بتایا کہ مسیحی قوم پہ صفائی کی نوکریوں کا چھاپ لگا ھوا ھے جس کی وجہ سے وہ ذہنی پسماندگی کا شکار ھیں۔ اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے ھیں۔
سابقہ فاٹا کے مشہور سماجی رھنما ولسن وزیر (ستارہ امتیاز) جو کہ حال ھی میں اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی خیبر پختون خواء منتخب ھوئے ھیں نے مسیحیوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ھوئے کہا کہ مسیحی قوم غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ھے۔ ان کا بیک گراونڈ اتنا مضبوط نہیں ھوتا کہ اوپن میرٹ پر مقابلہ کر سکیں۔ لہذا اکثر طلباء مایوس ھو کر تعلیم چھوڑ دیتے ھیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر سرکاری تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کے لئے کوٹہ مختص کر دیا جائے تو صورتحال میں قدرے بہتری آ سکتی ھے۔