عمران یوسف ۔ پشاور
اِنسانی تاریخ کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو انسان کی انسان کے ساتھ نفرت کی کہانیاں ہر طرف بکھری ملیں گی اور یہ نفرت چاہے گورے سے کالے کی ہو ــ۔ عربی سے عجمی سے ہو یا کسی ایک مذہب کے طبقے کی دوسرے مذہبی طبقے سے ہو اس نفرت نے سِوائے نقصان اور جنگ و جدل کے انسان کو کچھ نہیں دیا۔
لیکن اسی نفرت بھرے ماحول میں ایسے ایسے سُورما بھی پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی قوم کا بھی سر فخر سے بلند کیا۔
پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں اور خصوصاً مسیحی اقلیت کی بات کریں تو مذہب کی بنیاد پر اس مذہب کے پیروکار پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک کئی بار شکار ہوئے ہیں۔ لیکن آج بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی شب و رات محنت اور تعلیم سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی پوری قوم کا نام روشن کیا۔
جی ہاں آج ہم بات کریں گے پشاور کی ایک ایسی مسیحی بیٹی کی جو نہ صرف اپنے والدین اور خاندان کے لئے قابلِ فخر ہیں بلکہ پوری مسیحی قوم کے لئے بھی عزت اور فخر کا باعث ہیں۔
مائرہ ایڈون جو 1988 میں پشاور کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ مائرہ کے والد اور والدہ دونوں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور خصوصاً ان کے والد پروفیسر سنی ایڈون کے نام سے نہ صرف پشاور بلکہ پورے پاکستان میں لوگ واقف ہیں۔
ابتدائی تعلیم پریذؤنٹیشن کانونٹ ہائی سکول سے حاصل کرنے کے ایڈورڈز کالج پشاور سے انگلش اور اکنامکس میں گریجویشن کیا اور پھر 2011 میںپشاور یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
2011 میں پشاور کے ایک مشہور تعلیمی ادارے ایڈورڈز کالج سے بطور انگلش لیکچرر منسلک ہوئیں اور سات سال اسی کالج میںاپنی خدمات سر انجام دیں۔
مِس مائرہ کتابیں پڑھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں اور انگریزی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ بقول ان کے یہ شوق ان کو ان کی والدہ سے ملا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ تین تین گھنٹے پشاورکی ایک مشہور بک شاپ پر نیچے فرش پر بیٹھ کر کتابیں پڑھا کرتے تھے۔
مائرہ کو ان کے ایک یونیورسٹی پروفیسر نے جو ان کے والد کے دوست بھی ہیں Motivate کیا کہ CSS کے امتحان کے لئے تیاری کریں۔ دو مرتبہ امتحان دینے کے باوجود کامیابی نہ مل سکی لیکن والدین اور خصوصاً بڑھے بھائی جو خود بھی PHD ڈاکٹر ہیں حوصلہ بڑھاتے رہے۔
پھر 2017 میں کرسمس کے مصروف ترین دنوں میں PMS کے امتحان میں حصہ لیا اور بقول ان کے انکی والدہ کرسمس سیزن میں صبح صبح امتحانوں کے لئے اُٹھاتی رہیں ۔
PMS کے رذلٹ پر خداوند نے کامیابی بخشی اور خاندان کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب بھی بہت خوش ہوئے۔ مس مائرہ کہتی ہیں کہ زندگی میں کئی طرح کے مشکل حالات آتے ہیں لیکن اگر ان کا مقابلہ ڈٹ کر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی حاصل نہ ہو۔
مائرہ ایڈون اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر سوشل ورک بھی کرتی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان نے ہمیں کچھ دیا ہے اور کچھ بنایا ہے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اس ملک کے لئے کچھ کریں اور اپنا حق ادا کریں۔ اُن کی پسندیدہ فارسی کی ایک Quote جو ہمیشہ انہیں متاثر کرتی ہے:
"I have sold my heart and bought a soul”
اور وہ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس ساری جدوجہد میں اور تعلیمی دور میں انہیںکبھی بھی کسی بھی طبقے یا مذہب کے لوگوں نے نشانہ نہیں بنایابلکہ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز میں اپنی تعلیمی پوزیشن اور محنت کی وجہ سے قابلِ ذکررہیں۔یہاں مجھے شاعرِ مشرق کی بات ” خودی کو کر بلند اتنا” والی بات سچ ہوتے نظر آتی ہے۔
انہوں نے اپنے PMS ٹریننگ اکیڈمی کا واقع بڑے فخر سے بتایا کہـ” اکیڈمی میں روز ٹریننگ سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت ؤسے دن کا آغاز کیا جاتا تھا۔ ایک دن ایک مسلم لڑکا کھڑا ہوا اور بولا” سر آپ کو پتا ہے کہ ہمارے درمیان ایک مسیحی لڑکی بھی ہے ٹریننگ میں تو کیوں نہ ہم بائیبل کی ؤبھی تلاوت کریں”۔
مائرہ ایڈون کا ماننا ہے کہ ہمیں پاکستان میں مل جل کر رہنا چائیے اور مسیحی قوم کو بھی اپنے دوسرے مذاہب کے ہم وطعنوں ؤسے دوریاں کم کرنی چائیں۔ ان کے دوستوں میں زیادہ تعداد مسلم دوستوں کی ہے۔
ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انہیں سکشن آفیسر ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کا عہدہ دیا گیا ہے اور وہ اس عہدے پر اپنے ملک کی خدمت سر انجام دے رہی ہیں۔انہوں نے اقلیتوں کے لئے سرکاری نوکریوں میں کوٹے کو بہت سراہا اور کہا کہ مسیحی بچوں کو اس سے فائدہ اُٹھا نا چائیے تاکہ ہماری قوم ترقی کرے اور پاکستان کے لئے باعث ِ فخر ہو ۔
ان کا ماننا ہے کہ ہماری مسیحی قوم میں سے کسی بھی قسم کی احساسِ کمتری کو دور کرنے میں چرچ اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اس کام کے لئے چرچز میں مذہبی ہم آہنگی کے سیمیناز کا انعقاد بہت ضروری ہے۔
جناب پروفیسر سنی ایڈون صاحب ان کے والد کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو صاف صاف الفاظ میں بتایا کہ آپکے والدین ٹیچرز ہیں اور میڈیکل اور انجنئیرنگ کالجز میں داخلوں کے لئے بڑی بڑی رشوتیں نہیں دے سکتے لہٰذا خوب دل لگا کر محنت سے تعلیم حاصل کریاں اور مکمل ایمانداری سے اپنے امتحانات دیں اور خدا پر بھروسہ رکھیں۔
بطور ایک تعلیمی ماہر پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ہماری مسیحی قوم کو ترقی کرنے اور کسی بھی قوم کی نفرت کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنانا چائیے۔بقوم پروفیسر صاحب جتنے بھی مسیحی لوگ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کے پاس ایک Authority ہے اور وہ اس Authority کو صرف Enjoy نہ کریں بلکہ پوری قوم کی ترقی کے لئے استعمال کریں۔
اگر اس ساری گفتگو کا بغور مطالعہ کریں تو کئی سوال ذہن میں جنم لیتے ہیںکہ:
اگر ایڈون فیملی اپنی محنت اور تعلیم سے لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں تو پھر ساری مسیحی قوم کیوںنہیں؟
کیا اس مذہبی نفرت کا سامنا ہمیں واقعی ہے اور کتنا شدید ہے؟ کیا اس ایڈون فیملی کی طرح ساری مسیحی قوم بھی مذہبی نفرت کا جواب اپنی محنت اور حصولِ تعلیم سے دے سکتی ہے؟ اور کیا تعلیم ہماری نئی نسل کے لئے بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے؟
سب سے آخر پر کہ کیا تعلیم سے اور محنت سے ہم پاکستان میں پُر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم کر سکتے ہیں؟
ضرور ان سوالات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں خود کو اس مقام پر لے کر جانا ہے کہ لوگ خود آپ کو مانیں اور آپ پوری قوم کے لئے فخر بن جائیں۔