سلیم صافی : سینئر صحافی اور تجزیہ کار
میرے دادا وارث خان مہمند ایجنسی سے ضلع مردان اُس وقت منتقل ہوئے تھے جب میرے مرحوم والد جوان تھے تاہم میرے دادا کے بھائی وہاں زمینوں پر رہ گئے۔ ہم سب بہن بھائی مردان میں پیدا ہوئے اور یہاں پلے بڑھے۔ والدین اور بڑے بھائی غمی شادی پر وہاں آتے جاتے رہے لیکن مجھے ایک دو بار ایک آدھ دن کے لئے وہاں جانے کے سوا خاطر خواہ قیام کا موقع میسر نہیں آیا تھا۔
پشاور میں بطور صحافی کام کرتے ہوئے میں قبائلی نظام کی قباحتوں اور ایف سی آر کے مظالم سے آگاہ ہوا تاہم ایف سی آر پر مبنی ظالمانہ قبائلی نظام کے خاتمے کو اپنا مشن بنانے کا فیصلہ میں نے 2003میں اس وقت کیا جب میرے اسکول کے دنوں کے دوست حافظ فضل حسین مہمند ایجنسی میں تحصیلدار تعینات ہوئے۔ ان کی وجہ سے میرا مہمند ایجنسی آنا جانا بڑھ گیا لیکن ٹرننگ پوائنٹ وہ دن ثابت ہوا جب اُنہوں نے میرے اعزاز میں میرے آبائی علاقہ تحصیل پنڈیالی میں مقامی ملکانان کی طرف سے دعوت رکھوائی۔
اگرچہ سب آئو بھگت تحصیلدار صاحب کے مہمان یعنی میری ہو رہی تھی لیکن اپنے قبیلے کے بزرگوں کو جس طرح میں نے ایک تحصیلدار کی قدم بوسی کرتے ہوئے دیکھا تو نہ صرف وہ کھانا مجھے زہر لگنے لگا بلکہ اس دن میں نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ جب بھی اللہ نے توفیق دی تو میں یہاں سے اس ظالمانہ اور غلامانہ نظام کو ختم کرنے اور یہاں پر باقی پاکستان کی طرح آئین اور قانون کی حکمرانی لانے میں اپنا کردار ادا کروں گا۔
چنانچہ اس وقت سے میں نے اس ظالمانہ قبائلی نظام کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع کیا۔ تب سے لے کر اب تک میری صحافت میں اس ایشو کو کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ اس جدوجہد میں مختلف مرحلے اور طرح طرح کی آزمائشیں آئیں۔ ایک طرف مراعات یافتہ ملکانان مخالف تھے، دوسری طرف طاقتور بیوروکریسی مزاحم تھی۔ تیسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ خلاف تھی جبکہ اوپر سے پیسے کے زور پر منتخب ہونے والے قبائلی ایم این ایز اور سینیٹرز سانپ بن کر اس نظام کی پہرہ داری کررہے تھے۔
نائن الیون، اس کے بعد طالبانائزیشن اور پھر ملٹری آپریشنز نے ہم جیسے لوگوں کے سفر کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔ اس سفر میں دھمکیاں بھی ملیں۔ فتوے بھی لگے۔ الزامات بھی لگتے رہے۔ کبھی امریکی ایجنٹ گردانا گیا تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کا۔ اور تو اور اس مقصد کے لئے مجھے مولانا فضل الرحمان صاحب جیسے دوستوں کو ناراض کرنا پڑا اور بعض اوقات ان لوگوں کے زندہ باد کا بھی نعرہ لگایا جن کے ہر قدم اور ہر فعل سے اختلاف تھا۔
زندگی رہی تو ان سب مراحل کی تفصیل اس موضوع سے متعلق میری کتاب میں آجائے گی۔ تاہم یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد تھی اور بعض اوقات مایوسی کے سایے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے تاہم سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات نے جہاں مایوسیوں کو دور کیا وہاں پہلی مرتبہ منزل کے قریب ہونے کا گمان بھی ہونے لگا۔
سرتاج عزیز کمیٹی کے بعد دوسرا مرحلہ قبائلی علاقوں کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں پر مشتمل فاٹا یوتھ جرگہ کا قیام تھا۔ میری سرپرستی میں جے یو آئی اور پی کے ایم اے پی کے سوا تمام مکاتب فکر کے نوجوانوں کا انضمام کے لئے اکٹھے جدوجہد پر آمادگی نے نہ صرف بطور سرپرست اعلیٰ میرے جذبوں کو مہمیز بخشی بلکہ ان نوجوانوں نے انوکھی تاریخی جدوجہد کی۔
تیسرا اور فیصلہ کن عامل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم کا انضمام کی سوچ سے متفق ہو جانا اور فاٹا یوتھ جرگہ کے ساتھ ان کا یہ عہد تھا کہ وہ اس مقصد کے لئے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔ ان کے کردار کو ہمیشہ کے لئے اس لئے یاد رکھا جائے گا کہ نہ صرف ان کے اداروں کے نچلے لیول کے لوگ جو قبائلی علاقہ جات میں تعینات تھے، بیوروکریسی کی طرح انضمام کے حق میں نہیں تھے بلکہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ کئی فورم پر برملا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ فاٹا یوتھ جرگہ(اب ٹرائبل یوتھ جرگہ) نے انہیں انضمام کے حوالے سے یکسو کرایا۔
حقیقت یہ ہے کہ یکسو ہونے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم نے ہی فاٹا انضمام کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا اور قبائلی نوجوانوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ ہموار کی۔ بہر حال گزشتہ سال مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے آخری ہفتے میں قبائلی عوام کو اس کالے قانون سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی۔ قبائلی عوام کو قانونی اور آئینی لحاظ سے ستر سال بعد آزادی کی نعمت نصیب ہوئی اور وہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے لیکن ظاہر ہے کہ یہ انضمام کا پہلا مرحلہ تھا اور صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کے بغیر انضمام کا عمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا تھا۔
ہمارے مشن کا آخری مرحلہ صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا تھا اور الحمدللہ آج وہ مرحلہ بھی سر ہو رہا ہے۔ آج نہ صرف آئینی حوالے (انتظامی، مالی اور سیاسی حوالوں سے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا) سے انضمام کے عمل کی تکمیل ہورہی ہے بلکہ الحمدللہ میرا خواب بھی پورا ہو رہا ہے۔ چنانچہ آج کے بعد میں قبائلی اضلاع سے متعلق بھی ویسا ہی ایک صحافی بن جائوں گا جس طرح کہ باقی پاکستان سے متعلق ہوں۔ اب وہاں پر بھی عوام کے حقوق کے لئے اسی طرح عوامی نمائندے ایوانوں میں آواز اٹھائیں گے جس طرح باقی پاکستان میں ہے۔
اب وہاں کے عوام بھی اسی طرح ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں جس طرح باقی پاکستان کے لوگ کرتے ہیں۔ اب وہاں پر بھی اسی طرح سیاست ہو گی جس طرح کہ باقی پاکستان میں ہو رہی ہے۔ قبائلی علاقوں کی خصوصی حیثیت (آئینی اور قانونی لحاظ سے) ختم ہو گئی اور یوں میری خصوصی ڈیوٹی بھی ختم ہو گئی۔ اب وہاں کے سیاستدان جانیں، عدالتیں جانیں اور دیگر ادارے جانیں تاہم آج کے انتخابات کے حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی حکومت وہاں پر انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کررہی ہے۔
گورنر، وزیراعلیٰ اور افتخار درانی پر مشتمل خصوصی سیل ان انتخابات کو گزشتہ عام انتخابات کی طرح کی مشق بنانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ خزانے کے منہ کھول دئیے گئے ہیں اور ڈپٹی کمشنرز کو پی ٹی آئی کے کارندوں کے طور پر استعمال کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں لیکن میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اگر آج کے انتخابات شفاف طریقے سے کرائے گئے تو یہ ان علاقوں میں امن اور سیاسی استحکام کے لئے تمہید ثابت ہوں گے اور اگر صوبائی حکومت کے حق میں دھاندلی کے منصوبے کامیاب بنا کر حقیقی مینڈیٹ کو چرایا گیا تو یہ انتخابات الٹا ایک نئے فساد کا موجب بنیں گے جبکہ انضمام کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ باقی مرضی ہے مرضی والوں کی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ راولپنڈی
یہ کالم دراصل روزنامہ جنگ کے 20 جولائی 2019 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔