پرائیویٹ سکولوں کو بھی ریلیف پیکج دینے کی ضرورت ہے

fff31592-11a4-48cf-9efe-7e5f9005c259.jpg

محمد عباس:تجزیہ کار

کورونا وائرس نے 200 سے زائد ممالک اور ریاستوں میں صحت، تعلیم و معیشت کو نہ صرف مزید زبوں حالی کی جانب گامزن کیا بلکہ اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اسی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی منزل کی متلاشی معاشی کشتی جو کہ پہلے سے بیچ سمندر میں ہچکولے لے رہی تھی اور اسے اپنی منزل تک کا پتہ نہ تھا۔ کورونا وائرس نامی وباء نے معیشت کی اس کشتی کو مزید مشکلات سے دوچار کیا۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ کورونا وائرس اس معاشی کشتی کیلئے سائیکلون نامی سمندری طوفان ثابت ہوا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

عمران خان کا شمار مسلم امہ کے دو عظیم لیڈران میں سے ہوتا ہے اور لیڈر کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ حالات سے ہارنے کے بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وزیراعظم صاحب اس وقت کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی چیلنجز کا سامنا نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ حکومت کا ہر فیصلے اس وباء سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کچلنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔ ویسے تو وزیراعظم صاحب 2018 کے عام انتخابات سے قبل بلند وبانگ دعوے کرتے تھے کہ قومیں میٹرو اور سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی، میں اقتدار میں آکر تعلیم پر خرچ کرونگا۔ ملک کا تعلیمی سٹرکچر اور شرح خواندگی کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی مناسب فیصلہ لگتا تھا۔ اور عوام۔کی دلی خواہش جو تھی کہ ان کے بچوں کو معیاری تعلیم مہیا ہو۔ لیکن یہ وعدہ نبھاتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔

جبکہ کورونا نامی وباء کے بعد تو ہمارا شعبہ تعلیم مزید مشکلات سے دوچار اور خستہ حالی کا شکار ہوجائے گا۔ دیکھا جائے تو حکومت نے لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے پیش نظر بے روزگار اور کاروباری افراد کے لئے ریلیف پیکجز کا اعلان کیا اور ان میں رقم تقسیم کرچکے ہیں۔ بے روزگار افراد کیلئے وزیراعظم عمران خان نے 6.6 ملین خاندانوں کیلئے 81 بلین روپے کے کورونا ریلیف فنڈ کا اعلان کیا ہے جبکہ لاک ڈاؤن سے چھوٹے کاروبار کے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے ضمن میں بھی حکومت بلا سود ریلیف سکیم کا اعلان کرچکی ہے جو کہ چھوٹے تاجروں کو اپنا کاروبار بحال کرنے میں ممد و معاون ثابت ہونگی۔

تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کی روک تھام سے متعلق احتیاطی تدابیر پر من و عن عملدرآمد کرنا ناممکن تھا، اسی لئے حکومت نے بچوں و نوجوانان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا جس میں دوبار توسیع کرتے ہوئے 15 جولائی تک تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سکول و کالجز کے طلباء و طالبات کا پچھلے امتحانات کی کارکردگی کی بنیاد پر پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

لیکن یہاں اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے سکول و کالجز سے متعلق اپنا فیصلہ واضح طور پر پیش کردیا ہے مگر مدارس میں پڑھنے والے طلباء کا کیا مستقبل ہوگا اس حوالے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ حکومت کو چاہئیے کہ اس بارے کوئی واضح فیصلہ کرکے سامنے لائے۔ دوسرا چونکہ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ تعلیمی نظام خستہ حالی کا شکار ہے، چونکہ تعلیم کو فروغ دینے کیلئح پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن بے روزگاری کے اس عالم میں لوگ پرائیویٹ سکولوں و کالجوں کی فیسیں کہاں سے اور کیسے ادا کریں؟ اور اگر لوگ فیسیں ادا نہیں کرینگے، تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان سکول و کالج عمارتوں کا کرایہ کہاں سے ادا کرینگے۔ کورونا وائرس سے بڑھنے والی بے روزگاری اور غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں پر 20 فی صد کٹ لگا دیا گیا ہے۔ مگر باقی کا 80 فی صد بچوں کے والدین کہاں سے ادا کریں؟

کسی بھی خوشحال ملک و قوم کیلئے روزگار، صحت، تحفظ سے متعلق سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہوتا ہے کہ انکو بہتر تعلیم بھی مہیا کی جائیں۔ یہ نہ صرف ملک و قوم میں شعور پیدا کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے بلکہ تعلیم سے ہی اقوام کی ترقی و خوشحالی منسلک ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ جہاں انہوں نے بے روزگار افراد کیلئے کورونا ریلیف پیکج، اور چھوٹے کاروبار کیلئے بلاسود ریلیف سکیم کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیساتھ بھی مل بیٹھ کر عوام اور ان اداروں کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے تاکہ تعلیمی نظام مزید مشکلات سے دوچار ہونے اور خستہ حالی کی طرف جانے سے بچا جاسکیں۔ اور قوم کے ہونہار معیاری تعلیم حاصل کرسکیں۔

کشمیر، فلسطین و افغانستان ایسے مسائل ہیں جس نے دنیا بھر میں ہتھیاروں کی بناؤٹ اور خرید و فروخت کو ہمیشہ فروغ دیا ہے۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ ہمارا مقصد ہتھیار بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا نہیں، جنگجوؤں کو پیدا کرنا نہیں۔ بلکہ ہمارا ہدف تعلیم کو فروغ دیکر ڈاکٹر، انجینئیر، وکیل، صحافی، پروفیسر وغیرہ پیدا کرنا ہے۔ جبکہ اسلحہ کی فیکٹریاں اور ہتھیار بنانا نہیں، بلکہ ہسپتال اور وینٹی لیٹر بنانا ہے۔ اس دنیا کا نفرت و جنگ کی نہیں محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ اسے مزید آگ کے شعلوں میں جھونکنے سے بچانا ہوگا۔ تمام ممالک اور لیڈران کو باہمی اختلافات بھلا کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئیے اور تمام مسائل جو جنگ و جدل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ان کو ختم کرنا ہوگا۔ تاکہ کورونا جیسی کسی اور وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top