پاکستان میں فسطائیت کا نیا دور اور اس کی خلاف سیاسی مزاحمت

540cf4aaf3b2d.jpg

ڈاکٹر خادم حسین

یہ دور جو میں اسلام آبادمیں ایک کنٹینر پرگالم گلوچ سے شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے، پاکستان میں سیاسی جبر اور استعماریت کا ارتقاء کہلایاجاسکتاہے۔ اس سے پہلے 1948ء میں بابڑہ میں نہتے خدائی خدمتگاروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی۔ 70ء کی دہائی میں لیاقت باغ پنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے پر اندھادھند گولیاں برسائی گئیں تھیں۔

80 ء کی دہائی میں عسکری فیکٹریوں میں بننے والے جہاد کے ذریعے لاکھوں پشتونوں اور افغانوں کو قتل بھی کیا گیا اور دربدر بھی کیا گیا۔ چار بار بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشنوں میں ہزاروں بلوچوں کو ماردیاگیا اور سینکڑوں کو لاپتہ کیا گیا۔

1990ء کی دہائی سے لے کر اب تک پشتون سرزمیں پر میڈ ان پنڈی کی پرتشدد انتہاپسندی کے اقتصاد اور طالبانائزیشن کے ذریعے ہزاروں پشتونوں کو قتل اور لاکھوں کو دربدر کیاگیا۔ پشتونوں کے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی نظام کا تار وہود بکھیر دیا گیا اورانکی سیاسی تحریک عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کو سرعام ماردیاگیا۔

اسی فسطائی انتظامی ڈھانچے میں ایک منتخب وزیراعظم کو سولی پر چڑھا دیاگیا، دوسرے کو سرعام گولی ماردی گئی اور تیسرا اور چوتھا وزرائے اعظم جعلی مقدموں میں ابھی تک پس زنداں ہیں۔عوام کے جمہوری حقوق کیخلاف پاکستانی اشرافیہ کا موجودہ کریک ڈون پنڈی کی فیکٹریوں میں تیارشدہ بنی گالہ کی کٹھ پتلیوں کے ذریعے سرانجام دیا جارہا ہے۔

اس دور میں نوجوانوں کے سیاسی شعور کا منظم قتل عام کیا جارہا ہے اور سیاسی جماعتوں کو تحلیل کرنیکی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیا اور صحافت کاگلہ گھونٹا جارہا ہے۔ وفاقی پارلیمانی نظام، صوبوں کی خودمختاری، قوموں کی شناخت اور دھرتی کی تہذیبوں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں اورکارکنوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔

نیو لبرل سامراجی معاشی پالیسیوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے اور لاکھوں لوگوں کوخط غربت سے نیچے پھینکا جارہا ہے۔ مہنگائی کے ذریعے عام لوگوں کو بھوک سے مارا جارہا ہے۔ یونیورسٹی کیمپسوں کو چھانیوں میں تبدیل کرکے روشن خیال پروفیسروں کو توڑا بھی جارہا ہے اور نکالا بھی جارہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کو مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے اورمیڈیا پر انکی زباں بندی کے ذریعے پارٹی کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کو دہشتگردی کے دفعات کے ذریعے پس زندان ڈال کران کو بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خڑ قمر شمالی وزیرستان میں قتل عام کے بعد ایم این اے علی وزیر اور ایم این اے محسن داوڑ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور اسمبلی اجلاس کیلئے انکے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کئے جارہے۔

آئین کو پس پشت ڈال کر فوج اعلانیہ طور پر ریاست، سیاست، عدالت اور حکومت کو اپنے کنٹرول میں لارہی ہے۔ کرپشن کے بوگس بیانیے کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو توڑا جارہا ہے۔ گویا پاکستان کے عوام اور بالخصوص محکوم اقوام اور طبقات باالفعل ایک فسطائی دور میں سانس لے رہے ہیں۔

اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ پرامن احتجاج کا وقت نہیں آیا تو پھر یا تو اسکی عقل جواب دے گئی ہے اور یا پھر اسکے ضمیر کا سودا ہو گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی جبر اور فسطائیت کے خلاف عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کے راستے کون کونسے ہیں؟

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو پارلیمان کے اندر اور باہر فوری اور مسلسل اقدامات کرنے ہونگے۔ سینیٹ کے چیئرمین ہٹانے پر جو اتفاق رائے ہو گیا تھا اس پر فوری عمل در آمد نہیں ہو سکا لیکن اس پر دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ یہاں تو یہ تک ہوا ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے پر امن احتجاجوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی ان احتجاجوں کا دائرہ وسیع کرکے جاری رکھنا چاہئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کو اپنا ایک موثر اتحادیہ بناکر فکری اور سماجی طور پر فسطائی بیانئے کے توڑ کا عمل تیز کرنا چاہئے۔لیبر یونینز، طلبہ تنظیموں، جرنلسٹ یونینز، وکلا تنظیموں اور ایکیڈمک یونینز کو کیمپسوں، عدالتوں کے احاطوں، پریس کلبوں اور فیکٹریوں کے اندر معاشی پالیسیوں، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف علامتی ہڑتالوں کے سلسلے کا اعلان کرنا چاہئے۔ پروفیسروں، ادیبوں، شاعروں، اساتذہ اور وکلا کو سوشل میڈیا، وی لاگز، یو ٹیوب اور دوسرے فورمز کے ذریعے فسطائی منطق کا تاروہود بکھیر دینا چاہئے۔

پشتون سرزمین پر دہشت گرد اقتصاد، پر تشدد انتہا پسند بیانئے اور فسطائی سیاست کے خلاف ہڑتالوں، احتجاجوں اور پہیہ جام کے ذریعے بھر پور پر امن مزاحمت کرنے والی دوسری تنظیموں کو عوامی نیشنل پارٹی کا ساتھ دینا چاہئے۔ اے ظلم کا ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گیپاکستان میں آجکل وزرا کی ایک پوری فوج ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اسی دستے کی کمک کیلئے کئی ایک سکرپٹ زدہ اینکر پرسنز بھی روزانہ ٹی وی سکرینوں کو زینت بخشتے ہیں۔

شکست خوردہ ذہنیت الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کرپشن، منی لانڈرنگ، چوری اور غداری کی چیخ و پکار کے ذریعے ڈوبتی ہوئی معیشت، انتہا پسندی کے اقتصاد، قومیتوں کی محرومیوں اور خارجہ امور سے لوگوں کی توجہ ہٹانا اور اختلاف نظر کو معدوم کرنا چاہتی ہے۔

فسطائیت کے اجزا میں سے ایک جزو یہ بھی ہے کی فسطائی قوتیں اختلافی نکتہ نظر، سول سماج کی فعالیت، اینٹلیجنسیا کی فکر انگیزی، میڈیا کی آزادی، سیاسی جماعتوں اور روشن فکر قوم پرست جماعتوں کو تحلیل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں اور اسکے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتی ہیں۔

سرسری مشاہدے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے موجودہ مسلط کردہ حکومت کی ہیجان خیزی اور سول سماج کو تحلیل کرنے کی خواہش کی سہولت کاری کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں اور روشن فکر قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف کریک ڈان، ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی زور و شور سے جاری ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے۔1960 ء اور1970 ء کی دہائیوں میں یہ ہتھکنڈے نیشنل عوامی پارٹی اور جناح صاحب کی بہن فاطمہ جناح کے خلاف آزمائے جا چکے ہیں۔1980 ء کی دہائی میں اس قسم کے حربے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف بھی کام میں لائے جا چکے ہیں۔

اختلاف نظر اور تنوع کو مطعون کرنے، تحلیل کرنے، معدوم کرنے اور راستے سے ہٹانے کا بوسیدہ فسطائی بیانیہ پہلے بھی ناکام ہو چکا ہے اور اب بھی ناکام ہوگا چاہے اسکے لئے کتنا بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے چیخ و پکار کی جائے۔ یہ بوسیدہ بیانیہ تاریخ کی مخالف سمت میں سفر کرتا ہے جو کہ سائنسی اور عقلی طور پر ممکن نہیں۔

پاکستان کے اندر ایک نئے جمہوری، قومی، معاشی اور سیاسی چارٹر کیلئے ایک وسیع تر مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مکالمہ پارلیمان کے اندر بھی ہو اور باہر بھی لیکن اس کیلئے پارلیمان ہی سب سے زیادہ مناسب فورم ہے۔

ریاست اگر سول سماج کی توڑ پھوڑ کا عمل اسی طرح جاری رکھے گی تو خود ریاست کے جواز پر سوال اٹھنا شروع ہوجائیں گے۔ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ سیلیکٹڈ کی یوٹیلٹی تیزی کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر خادم حسین ایک محقق اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت باچاخان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top